ایک مجلس کی تین طلاق

احادیث صحیحہ اور آثار صحابہ کی روشنی میں

از:ابوطلحہ قاسمی خیرآبادی

 

تین طلاق کا جواز اور وقوع، احادیث صحیحہ اور آثار صحابہ سے ثابت ہے۔

خود کو بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

آج کل ایک مجلس کی تین طلاق کا مسئلہ پورے ہندوستان بلکہ عالمی پیمانے پر اچھالا جارہا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک مانی جائے گی تین نہیں، اور انتہائی جرأت و بے باکی سے کہا جارہا ہے کہ ”حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایک حدیث بھی مجلس کی تین طلاق کی حمایت میں نہیں وارد ہوئی ہے، اور طلاق ثلاثہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منظوری حاصل نہیں ہے“ اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ”طلاق انسان کا بنایا ہوا قانون ہے اور یہ دعویٰ کرنا کہ طلاق کا قانون وحی پر مبنی ہے کھلی بے ایمانی ہے۔“

اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ شریعت کے نزدیک بیوی کو طلاق دینا انتہائی مبغوض اور مکروہ فعل ہے، طلاق کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابغض الحلال کہا ہے(رواہ ابن ماجہ:۲۰۱۸) اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: اگر میاں بیوی میں ناچاقی پیدا ہوجائے تو (مطلقاً طلاق کے بجائے) باہمی صلح و مصالحت کاطریقہ اختیار کرو بایں طور کہ شوہر کے گھرانے سے ایک ذمہ دار شخص اور عورت کے گھرانے سے ایک ذمہ دار شخص صلح مصالحت کی کوشش کریں۔ (سورہ نساء:۳۵)

لیکن اگر صلح مصالحت سے کام نہ چلے اور میاں بیوی میں اتفاق کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو مجبوراً طلاق جیسے مبغوض عمل کی شریعت نے اجازت دی ہے، اب شوہر کتنی طلاق دے، ایک، دو، یا تین۔ نیز تین طلاق دینے کی صورت میں ایک ہی طہر میں تینوں دے یا الگ الگ طہر میں اور اگر ایک طہر میں تین طلاق دے رہا ہے تو ایک مجلس میں دینا چاہئے یا الگ الگ تین مجلس میں۔ ان سب چیزوں کا بیان مندرجہ بالا آیت میں نہیں ہے، بلکہ ان میں سے بعض کا بیان قرآن کریم کی دوسری آیات میں ہے اور بعض چیزوں کا بیان قرآن کریم میں سرے سے ہے ہی نہیں، ان کا ذکر صرف احادیث صحیحہ میں ہے، جس کی تفصیل مالہ و ما علیہ کے ساتھ درج ذیل ہے:

طلاق کی قسمیں

طلاق کی تین قسم ہے:

(۱) طلاق احسن، یعنی شوہر بیوی کو ایک طلاق دے، ایسے طہر میں جو جماع سے خالی ہو اور اسی حالت پر بیوی کو چھوڑ دے تا آں کہ عدت پوری ہوجائے یا رجوع کرنا چاہے تو زمانہٴ عدت میں رجعت کرلے۔

(۲) طلاق کی دوسری قسم طلاق حسن ہے، یعنی مدخول بہا عورت کو تین طلاق الگ الگ طہر میں دے۔

(۳) تیسری قسم کو طلاق بدعی کہتے ہیں۔ اس کی دو صورت ہے: پہلی صورت یہ ہے کہ شوہر بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے اور دوسری صورت یہ ہے کہ ایک ہی طہر میں تین طلاق (الگ الگ مجلس میں) دے۔ (ہدایہ: ۱/۲۲۱، مطبوعہ بیروت، ۱۹۹۵/)

اول الذکر دو قسموں کا ذکر قرآن وحدیث دونوں میں موجود ہے، پہلی قسم کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے: یا أیہا النبي اذا طلقتم النساء فطلقوہن لعدتہن (سورہ طلاق:۱) اے نبی جب آپ طلاق دیں عورتوں کو تو ان کو طلاق دیجئے ان کی عدت پر۔ یعنی طہر میں طلاق دیجئے تاکہ اسکے بعد والا حیض عدت میں شمار ہوجائے اور حدیث سے یہ قید بھی ثابت ہے کہ اس طہر میں صحبت نہ کی ہو، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دے دی، حضرت عمر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ ناراض ہوگئے اور کہا کہ ابن عمر کو رجعت کرلینا چاہئے اور بیوی کو نکاح میں باقی رکھنا چاہئے تاآں کہ عورت کو دوسرا حیض آجاوے اور اس حیض سے پاک ہوجاوے تو اب اگر ابن عمر کو مناسب معلوم ہو تو بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو الخ۔ (نسائی۳۳۹۱، بخاری ۵۲۵۱، مسلم ۱۴۷۱، ابن ماجہ ۲۰۱۹)

طلاق کی دوسری قسم کا ذکر اس آیت میں ہے: الطلاق مرتان، فامساک بمعروف أو تسریح باحسان (سورہ بقرہ: ۲۲۹) طلاق رجعی دوبار ہے، اس کے بعد دستور کے موافق بیوی کو رکھنا ہے یا بھلے طریقے سے چھوڑ دینا ہے۔ یعنی طلاق جس میں رجعت ہوسکے کل دوبار ہے، ایک یا دوطلاق تک تو اختیار دیاگیا کہ عدت کے اندر مرد چاہے تو عورت کو پھر دستور کے موافق رکھ لے یا بھلی طرح سے چھوڑ دے، پھر عدت کے بعد رجعت باقی نہیں رہتی۔ ہاں اگر دونوں راضی ہوں تو وہ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں اوراگر تیسری بار طلاق دے گا تو پھر ان میں نکاح بھی درست نہیں ہوگا جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے نکاح کرکے صحبت نہ کرلیوے۔ (ترجمہ شیخ الہند)

اور طلاق کی دوسری قسم کا ذکر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں ہے کہ : سنت طریقے پر طلاق یہ ہے کہ شوہر ایک طلاق دے ایسے طہر میں جس میں جماع نہ کیا ہو، پھر عورت کو حیض آوے اور حیض سے پاک ہوجائے تو دوسری طلاق دی جائے، پھر عورت تیسرے حیض سے بھی پاک ہوجائے تو تیسری طلاق دے اور اب عورت ایک حیض عدت گزارے گی۔ (اخرجہ النسائی ۳۳۹۴، وابن ماجہ ۲۰۲۱)

اور مذکورہ دونوں قسموں کا مجموعی ذکر اس آیت میں ہے : واذا طلقتم النساء فبلغن أجلہن فأمسکوہن بمعروف أو فارقوہن بمعروف (بقرہ: ۲۳۱) جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک طلاق، یا دو طلاق الگ الگ طہر میں دینے کی صورت میں رجعت کا حق صرف عدت تک ہے کہ عدت گزرنے سے پہلے یا تو رجعت کرے (اگر بھلے طریقے پر رکھناہے) یا بھلے طریقے پر چھوڑ دے اورعدت گزرجائے۔

مندرجہ بالا تینوں آیتوں میں اللہ نے یہ بیان کیا ہے کہ دو طلاق تک شوہر کو عدت کے زمانے میں رجعت کا حق باقی رہتا ہے۔ عدت گزرنے کے بعد رجعت کا حق باقی نہیں رہتا ہے بلکہ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا اور تین طلاق دینے کی صورت میں زمانہٴ عدت میں نہ تو رجعت کا حق باقی رہتا ہے اور نہ ہی عدت کے بعد اس سے نکاح درست ہے جب تک دوسرا شوہر اس سے نکاح کرکے صحبت نہ کرلے۔

قرآن کریم میں طلاق کی صرف دو قسموں کو ذکر کرنے کی حکمت و مصلحت دوسری آیات میں ملتی ہیں، ارشاد باری ہے: ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً (طلاق:۲) ومن یتق اللہ یجعل لہ من أمرہ یسرًا (طلاق:۴) لا تدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک أمرًا (طلاق:۱) یعنی طلاق کی بابت جو اللہ سے ڈرے اوراس کے بنائے ہوئے طریقے کے مطابق طلاق دے تو ممکن ہے کہ اللہ اس پر رحم و کرم اور نرمی کا معاملہ کریں اور کوئی سبیل پیدا فرمادیں بایں طور کہ طلاق کے بعد اللہ تعالیٰ شوہر کے دل میں بیوی کی محبت پیدا کردیں اور شوہر بیوی کو چاہنے لگے اور رجعت کرلے، اور ظاہر ہے کہ تین طلاق دینے کی صورت میں رجعت نہیں کرسکتا۔

مندرجہ بالا آیتوں میں سے کسی ایک بھی آیت میں - تیسری قسم کا بیان ہے ہی نہیں کہ جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دیدی تو اس کا کیا حکم ہے، قرآن نے اس کا ذکر ہی نہیں چھیڑا ہے بلکہ اس کا ذکر صرف احادیث صحیحہ شریفہ میں آیا ہے، اس لیے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ماننے پر قرآن کریم سے استدلال جس طرح غلط ہے اس سے کہیں زیادہ غلط یہ نظریہ ہے کہ ”ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانا جائے، تین ماننا قرآن کے خلاف ہے“ اس لئے کہ جب قرآن میں سرے سے اس کا ذکر ہی نہیں ہے تو ایک ماننے کو قرآن کے حکم کے موافق اور تین ماننے کو قرآن کے خلاف بتانا کہاں کا انصاف ہے؟ اور تمام اصولیین کے نزدیک یہ قاعدہ مسلم ہے کہ جب کوئی حکم قرآن میں مذکور نہ ہو تو احادیث کی طرف رجوع کیاجائے گا اور احادیث کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا اور اس صورت میں حدیث ”جاء بحکم لم یُذکَر فی القرآن الکریم“ کے قبیل سے ہوگی۔

طلاق ثلاثہ اور ائمہ مجتہدین

پہلے ہم ایک مجلس کی تین طلاق کی بابت ائمہ اربعہ رحمہم اللہ (جو اسلام کے سب سے اعلیٰ اور ممتاز ترین ماہر قانون تھے) کا نظریہ ذکر کریں گے کہ ان حضرات نے مجلس کی تین طلاق کو ایک مانا ہے یا تین۔ پھر ان احادیث و آثار کو ذکر کریں گے جن میں ایک مجلس کی تین طلاق کا ذکر ملتا ہے کہ ان احادیث و آثار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا فیصلے اور فتاوے صادر فرمائے ۔

امام نووی ایک مجلس کی تین طلاق کے بارے میں ائمہ اربعہ کا نظریہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ: علماء کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو اپنی بیوی سے انت طالق ثلاثا کہے (میں تجھے تین طلاق دیتا ہوں) امام شافعی، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام احمد اور جمہور علماء سلف و خلف اس بات کے قائل ہیں کہ تینوں واقع ہوجائیں گی۔ (شرح نووی علی صحیح مسلم: ۵/۳۲۸، تحقیق حازم محمد و اصحابہ، طباعت:۱۹۹۵/)

امام نووی کے اس بیان سے معلوم ہوگیا کہ ائمہ اربعہ نے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی مانا ہے، ایک نہیں مانا، لیکن افسوس غیرمقلدین پر نہیں ہے بلکہ حیرت اور تعجب ان لوگوں پر ہے جو اپنے آپ کو مقلد بھی ظاہر کرتے اور کہتے ہیں۔ پھر بھی ائمہ اربعہ کے مسلک کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور مجلس کی تین طلاق کو ایک ماننے پر اصرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تین ماننا اسلامی انصاف اور قانون کو مسخ کرنا ہے۔ اب ہم ان احادیث کو ذکر کریں گے جن میں ایک مجلس کی تین طلاق کا ذکر ملتا ہے۔

طلاق ثلاثہ اور احادیث

حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک صحابی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، اس عورت نے دوسرا نکاح کرلیا، دوسرے شوہر نے بھی (قبل الوطی) طلاق دے دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پہلے مرد کے لیے حلال ہوگئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک دوسرا شوہر پہلے شوہر کی طرح لطف اندوز نہ ہولے۔ (صحیح بخاری: ۵۲۶۱، صحیح مسلم:۱۴۳۳)

ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ماننے والے حضرات کہتے ہیں کہ اس حدیث میں ”طلق امرأتہ ثلاثًا“ میں ثلاث سے مراد ثلاث مفرقہ ہے یعنی یہ تینوں طلاقیں ایک مجلس میں نہیں دی گئی تھیں اس لئے اس حدیث سے ایک مجلس کی تین طلاق کے جواز پر استدلال فاسد ہے۔

لیکن ان حضرات کا ثلاث سے ”ثلاثل مفرقہ“ (تین طہر میں ایک ایک کرکے طلاق دینا)مراد لینا غلط ہے بلکہ ثلاث سے مراد ثلاث مجموعہ (ایک ہی دفعہ تینوں طلاق دینا) ہے کہ صحابی نے دفعة واحدہ (ایک مجلس میں) تینوں طلاق دی تھی، ثلاث مفرقہ مراد لینا خلاف ظاہر ہے اوراس پر کوئی قرینہ بھی موجود نہیں ہے، اس کے برعکس ثلاث مجموعہ مراد لینا ظاہر لفظ کے عین مطابق ہے۔ نیز ثلاث مجموع کے متعین ہونے کی تائید امام بخاری جیسے حدیث داں اور محدث کے ترجمة الباب سے ہوتی ہے۔ موصوف اس حدیث پریوں باب قائم کرتے ہیں: باب من جَوّز الطلاقَ الثلاث، اور شارح بخاری حافظ ابن حجر ترجمة الباب کی اس طرح وضاحت کرتے ہیں: ہذا یرجح أن المراد بالترجمة بیان من أجاز الطلاق الثلاث ولم یکرہہ، اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ترجمة الباب کا مقصداس امر کا بیان ہے کہ تین طلاقوں کو جائز قرار دیا اوراس کو مکروہ نہیں سمجھا۔ (فتح الباری: ۹/۳۶۷)

۲- ایک مجلس کی تین طلاق کے جائز اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رفاعہ قزطی کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور کہا کہ اے اللہ کے رسول: ان رفاعة طلقنی فَبَتَّ طلاقی کہ رفاعہ نے مجھے طلاق قطعی دیدی (عدت گزرنے کے بعد) میں نے عبدالرحمن بن الزبیر سے نکاح کرلیا لیکن ان کے اندر قوت رجولیت ختم ہوگئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تمہاری خواہش یہ ہے کہ پھر رفاعہ کی زوجیت میں چلی جاؤ، ایسا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ (عبدالرحمن) تم سے اور تم اس سے لطف اندوز نہ ہولو۔ (بخاری: ۵۲۶۰)

حضرت عائشہ کی پہلی حدیث اور یہ حدیث دونوں الگ الگ ہے، حافظ ابن حجر نے اسی کو راجح قرار دیا ہے اور دونوں حدیث کو الگ الگ واقعے پر محمول کیا ہے۔

مجلس کی تین طلاق کا انکار کرنے والے اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں طلاق البتہ کا ذکر ہے تین طلاق کا ذکر نہیں ہے، لیکن یہ کہنا کم علمی کی دلیل ہے اس لیے کہ خود امام بخاری نے کتاب اللباس میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور اس میں ”ثلاث تطلیقات“ ہے کہ رفاعہ نے تین طلاق دی تھی۔ طلاق البتہ (مغلظہ) نہیں دی تھی یہ راوی کا اپنا بیان ہے۔

اس کے بعد بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اس تین طلاق سے کیا مراد ہے، ثلاث مجموعہ مراد ہے کہ ایک ہی مجلس میں تینوں طلاق دی تھی یا ثلاث مفرقہ مراد ہے کہ الگ الگ مجلس میں طلاق دی تھی، مجلس کی تین طلاق کا انکار کرنے والے ثلاث مفرقہ ہی مراد لیتے ہیں؛ لیکن امام بخاری کی تبویب سے معلوم ہوتا ہے کہ رفاعہ نے ایک مجلس میں تینوں طلاق دی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں طلاق کے واقع ہونے کا فیصلہ فرمایا جیسا کہ حلالہ کی بات سے پتہ چلتا ہے، لہٰذا تین طلاق کے منکرین کی بات یہاں بھی غلط ثابت ہوگئی اور مجلس کی تین طلاق کا جواز اور ثبوت اس حدیث سے بھی ثابت ہوگیا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ”فتح الباری“: ۹/۳۶۷، ۴۶۸)

۳- فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں: طلقنی زوجی ثلاثًا وہو خارج الی الیمن فأجاز ذلک رسول اللہ صلی اللّہ علیہ وسلم (میرے شوہر حفص بن عمرو نے مجھے تین طلاق دیدی اور وہ یمن کے سفر میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز یعنی نافذ قرار دیا) اخرجہ ابن ماجہ ۲۰۲۴۔

اس روایت میں اضطراب دکھلانے کی بے جا کوشش کی جاتی ہے کہ بعض روایت میں ہے کہ پہلے فاطمہ کو دو طلاق دی گئی تھی پھرتیسری طلاق دی، اور بعض روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حفص نے طلاق البتہ دی تھی اور بعض روایت میں مطلق طلاق کا ذکر ہے تعداد کا ذکر ہی نہیں ہے۔ (دیکھئے: التعلیق المغنی علی الدار قطنی: ۴/۱۱)

لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حفص نے تین طلاق دیا تھا اور ایک ہی مجلس میں تینوں طلاق دیا تھا، اس لیے کہ دار قطنی کی روایت میں ہے کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن کے پاس کچھ لوگوں نے ایک مجلس کی تین طلاق کے مکروہ ہونے کا تذکرہ کیا، ابوسلمہ نے کہا کہ حفص بن عمرو نے فاطمہ بنت قیس کو ایک مجلس میں تین طلاق دیا تھا لیکن کسی روایت سے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نکیر فرمائی ہو۔ (اخرجہ الدارقطنی: ۴/۱۱)

الغرض مذکورہ روایت میں اضطراب نہیں ہے بلکہ دار قطنی کی روایت کی وجہ سے تین طلاق کی روایت کو ترجیح دی جائے گی اور حدیث مضطرب میں سے کسی ایک کو دوسرے پر راجح قرار دینے کے بعد اس کا اضطراب ختم ہوجاتا ہے، رہا یہ سوال کہ دارقطنی کی روایت کو ترجیح کیوں دی گئی تواس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں اس کے الفاظ کا اختلاف ختم ہوجاتا ہے اور ان کے درمیان تطبیق ہوجائے گی ورنہ کم از کم دارقطنی کی روایت کو ترک کرنا پڑے گا اگر ترجیح کی کوئی دوسری صورت اختیار کی گئی۔

نیز امام ابن ماجہ کی تبویب سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ حفص نے ایک ہی مجلس میں تینوں طلاق دی تھی؛ موصوف اس حدیث پر یوں عنوان لگاتے ہیں: من طلق ثلاثًا فی مجلس واحد جس نے ایک مجلس میں تین طلاق دی،اور حضرت فاطمہ بنت قیس کی تطلیق کی مذکورہ روایت کو بہ سند ذکر کیا ہے۔

۴- شروع میں حضرت ابن عمر کی تطلیق (طلاق دینے) کی جو حدیث گزری ہے اس کے بعض طرق میں حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں: فقلت (ابن عمر): یا رسول اللّٰہ أرأیت لو أنی طلقتہا ثلاثًا أکان یحل لی أن أراجعہا؟ قال: لا، کانت تبین منسک، وتکون معصیة (اخرجہ البیہقی: ۷/۳۳۴) صحیحین کے الفاظ یہ ہیں: وکان عبداللہ (بن عمر) اذا سئل عن ذلک قال: ان کنت طلقتَہا ثلاثا فقد حرمت علیک حتی تنکح زوجاً غیرہ

بیہقی کی روایت کی وجہ سے یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ اس میں حضرت ابن عمر نے ثلاث مجموعہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ہے کہ کلمہ واحدہ میں تین طلاق دینے کے بعد رجعت کرنا درست ہے یا نہیں (یعنی تینوں طلاق واقع ہوگئی یا نہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ اب رجعت نہیں کرسکتے؛ اس لیے کہ طلاق کے بعد رجعت کا حق ختم ہوجاتا ہے اور تین طلاق دینا (ایک مجلس میں) گناہ ہے۔

اس روایت میں ثلاث مجموعہ کے متعین ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابن عمر نے حالت حیض میں بیوی کو ایک طلاق دی، اور آپ کا ارادہ یہ تھا کہ حیض سے پاک ہوجانے کے بعد طہر میں پھر طلاق دوں گا پھر حیض سے پاک ہوجانے کے بعد تیسری طلاق دوں گا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حیض میں طلاق دینے پر نکیر فرمائی کہ تم کو پہلی طلاق حیض کے بجائے طہر میں دینا چاہئے تھا، سنت طریقہ یہی ہے، تم رجعت کرلو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت طریقے کی وضاحت بھی فرمادی تاکہ بقیہ دو طلاق کے استعمال میں ابن عمر غلطی نہ کریں اگرچہ ان کا ارادہ پہلے ہی سے تھا کہ بقیہ دو طلاق طہر میں دوں گا۔ (امام ابن تیمیہ نے ”منتقی الاخبار“ میں ابن عمر کے تطلیق کے قصے میں دار قطنی کے حوالے سے جو حدیث ذکر کی ہے اس کا مفاد وہی ہے جو ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: منتقی الاخبار مع شرحہ نیل الاوطار: ۴/۳۲۱، رقم ۲۸۵۲) اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ثلاث مفرقہ کا حکم خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی حضرت ابن عمر کو بتادیا تھا، دوبارہ ابن عمر جیسا شخص اس کے بارے میں پھر سوال کرے یہ ممکن نہیں ہے۔

بیہقی کی روایت پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں ایک راوی عطاء خراسانی ہے اور یہ ضعیف ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ابن معین، امام ابوحاتم، امام نسائی، دارقطنی اور ابن سعد وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے اور عطاء سنن اربعہ اور مسلم کے رجال میں سے ہیں، لہٰذا ان کو ضعیف کہنا غلط ہے۔ (دیکھئے ”تہذیب التہذیب:۷/۲۱۳،۲۱۴، عطاء خراسانی کا ترجمہ)

۵- حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ کے لعان کی حدیث صحیحین وغیرہ میں ہے، اس حدیث کے آخر میں حاضر واقعہ حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: فتلاعنا و أنا مع الناس عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فلما فرغا قال عویمر: کذبت علیہا یارسول اللہ ان أمسکتہا، فطلقہا ثلاثًا قبل أن یأمرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بخاری ۵۲۵۹، مسلم ۱۴۹۲) ابوداؤد کے الفاظ یہ ہیں: فطلقہا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سنن ابی داؤد، حدیث ۲۲۵۰)

ترجمہ: حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ان دونوں (عویمر اور ان کی بیوی) نے لعان کیا اور میں بھی لوگوں کے ساتھ حاضر خدمت تھا، جب میاں بیوی لعان سے فارغ ہوگئے تو عویمر نے کہا: اے اللہ کے رسول (…) ! اگرمیں نے اس کو نکاح میں روک لیا تب تو میں نے اس پر غلط الزام لگایا ہے (اور الزام جھوٹا نہ ہونے کی وجہ سے) حضرت عویمر نے بیوی کو تین طلاق دیدی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حکم صادر ہونے سے پہلے ہی۔ اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ عویمر نے بیوی کو تین طلاق دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں کو نافذ بھی کردیا۔

یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ حضرت عویمر نے لعان کے بعد ایک ہی مجلس میں تین طلاق دی تھی، جیسا کہ ظاہر لفظ سے پتہ چلتا ہے، لیکن اس پر اشکال یہ ہوتا ہے کہ لعان میں میاں بیوی کے درمیان جدائی نفس لعان سے ہوجاتی ہے طلاق دینے کی ضرورت نہیں ہے اس لیے جب عویمر اور ان کی بیوی لعان سے فارغ ہوگئے تو ان کے درمیان فرقت ہوگئی اب عویمر کا طلاق دینا غیر محل (اجنبیہ) میں تھا۔ (دیکھئے : نیل الاوطار: ۴/۳۲۱، تحقیق عادل عبدالموجود و اصحابہ، مطبوعہ بیروت، طباعت:۲۰۰۰/)

حافظ ابن حجر نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس حدیث سے ایک مجلس کی تین طلاق کے جواز پر استدلال اس بات سے ہے کہ جب حضرت عویمر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مجلس میں تین طلاق دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکیر نہیں فرمائی، اگر تین طلاق دینا (ایک مجلس میں) ناجائز اورحرام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور نکیر فرماتے، قطع نظر اس سے کہ فرقت تو نفس لعان سے ہوگئی یا نہیں، ان کی بیوی محل طلاق تھی یا نہیں۔ (دیکھئے : فتح الباری: ۹/۳۶۷)

۶- سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ جب حضرت علی شہید کردئیے گئے تو حسن بن علی کی بیوی عائشہ خثعمیہ نے آکر حضرت حسن سے کہا: آپ کو خلافت مبارک ہو، حضرت حسن نے کہا: امیرالمومنین کی شہادت پر مجھے مبارک باد دیتی ہے، جا! تجھے طلاق دیتا ہوں (ایک روایت میں تین طلاق کا ذکر ہے۔ دیکھئے : دارقطنی: ۴/۳۰) اور حضرت حسن نے کہا: اگر میں نے اس کو طلاق بائن نہ دی ہوتی تو میں اس سے رجعت کرلیتا، مگر میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی اپنی بیوی کو تین طلاق دے ہر طہر میں ایک طلاق، یا ہر مہینے کے شروع میں ایک طلاق یا بیک وقت (ایک مجلس میں) تین طلاق دے تواس کے لیے وہ عورت حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے۔ (اخرجہ الدارقطنی: ۴/۳۱، والبیہقی: ۷/۳۳۶)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ اکٹھی تین طلاق دے چکنے کے بعد رجوع کرنا ایسا ہی حرام ہے جیساکہ متفرق طور پر تین طہر میں تین طلاقیں دینے کے بعد حرام ہے، اگر دفعة تین طلاقیں دینے کے بعد بھی رجوع کی کوئی امکانی صورت باقی ہوتی تو حضرت حسن ضرور مراجعت فرمالیتے۔

اس حدیث پر جو اعتراض کیاگیا ہے وہ بقول مولانا شمس الحق صاحب عظیم آبادی غیرمقلد یہ ہے کہ اس کی سند میں دو راوی ضعیف ہیں، پہلا راوی عمروبن ابی قیس ہے اور دوسرا راوی سلمہ بن فضل ہے اور یہ بھی ان کے بقول ضعیف ہے۔ (دیکھئے: التعلیق المغنی علی الدارقطنی: ۴/۳۱)

لیکن غیرمقلد صاحب کا یہ اعتراض اصول حدیث کے پیش نظر کوئی وزن نہیں رکھتا اور مذکورہ حدیث حسن سے کسی طرح کم نہیں ہے؛ کیوں کہ عمروبن ابی قیس سے امام بخاری نے تعلیقاً روایت کیا ہے اور امام ابوداؤد، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ نے ان سے استدلال کیا ہے، ابن حبان اور ابن شاہین ان کو ثقات میں لکھتے ہیں اور امام بزار ان کو مستقیم الحدیث سے یادکرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: تہذیب التہذیب: ۸/۹۴)

اسی طرح سلمہ بن فضل کی امام ابن معین نے ایک روایت میں توثیق کی ہے، علامہ ابن سعد ان کو ”ثقہ صدوق“ کہتے ہیں، امام ابوداؤد بھی ان کو ثقہ کہتے ہیں، امام احمد فرماتے ہیں کہ مجھے ان کے بارے میں خیر ہی معلوم ہے۔ (دیکھئے : تہذیب التہذیب لابن حجر: ۴/۱۵۳)

آثار صحابہ

ایک مجلس کی تین طلاق کے جواز اور وقوع پر احادیث صحیحہ مرفوعہ سے استدلال کے بعداب ہم صحابہ کرام کے فتاویٰ اورآثار کو ذکر کررہے ہیں کہ صحابہ کرام نے مجلس کی تین طلاق کو ایک نہیں مانا ہے بلکہ تین مانا ہے اور وہ آثار درج ذیل ہیں:

۱- مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما خاموش رہے، مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ ابن عباس بیوی کو اس آدمی کے نکاح میں لوٹادیں گے، پھر ابن عباس نے کہا: تم لوگ حماقت کا کام کرتے ہو، پھر آکر چلاتے ہو اے ابن عباس، اے ابن عباس، اللہ فرماتا ہے: ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً، اور تم اللہ سے نہیں ڈرے اسلئے میرے یہاں تمہارے لئے کوئی سبیل نہیں ہے، تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔ (اخرجہ ابوداؤد:۲۱۹۷، والدارقطنی: ۴/۱۳)

۲- حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دیدی، حضرت ابن عباس نے کہا: تمہارے لئے کافی تھا کہ تین طلاق دیدیتے اور بقیہ نو سو ستانوے ترک کردیتے۔ (دارقطنی: ۴/۱۲)

۳- مدینہ میں ایک مسخرے آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دیدی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس استفتاء آیا، آپ نے کہا - کہ کیا تم نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے، اس آدمی نے کہا نہیں، میری نیت طلاق - کی نہیں تھی میں تو مذاق کررہا تھا، حضرت عمر نے اس کو کوڑے لگائے اور کہا کہ تین طلاق دیناکافی تھا۔ (عبدالرزاق فی ”المصنف“ ۱۱۳۴۰، والبیہقی: ۷/۳۳۴)

۴-ایک آدمی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دی ہے، آپ نے فرمایا: تین طلاق نے بیوی کو تم پر حرام کردیا۔ یعنی بقیہ نوسو ستانوے لغو ہوگئیں۔ (بیہقی: ۷/۳۳۵)

۵- محمد بن ایاس کہتے ہیں کہ: ابن عباس، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم تینوں سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو قبل الدخول طلاق دے دی، تینوں نے کہا: عورت اس کے لیے حلال نہیں ہے جب تک کہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے (ابوداؤد:۲۱۹۹) بیہقی کی روایت میں یہ زیادتی ہے کہ : ابن عباس اور ابوہریرہ نے اس آدمی کی مذمت نہیں کی کہ اس نے تین طلاق کیوں دی اور نہ ہی عبداللہ بن عمرو نے یہ کہا کہ تین طلاق دے کر تم نے بہت برا کام کیا۔ (اخرجہ البیہقی: ۷/۳۳۰)

۶- حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی تماضر بنت الاصبغ کو کلمہ واحدة (ایک مجلس میں) تین طلاق دیدی، عبدالرحمن کے شاگرد ابوسلمہ کہتے ہیں کہ کسی روایت سے ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کسی صحابی رسول نے آپ پر نکیر کی ہے۔ (دارقطنی: ۴/۱۲)

۷- مسلمہ بن جعفر احمسی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذ جعفر بن محمد سے پوچھا کہ : بعض حضرات کہتے ہیں کہ جس نے نادانی میں بیوی کو طلاق دے دی تواس کو سنت کی طرف لوٹایا جائیگا، یعنی ایک طلاق واقع ہوگی اور اس بات کو آپ سے روایت کرتے ہیں۔ جعفر بن محمد نے کہا: اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، ہم نے اس طرح کی بات نہیں کہی ہے بلکہ جس نے تین طلاق دی تواس کے قول کا اعتبار ہوگا۔ یعنی تین طلاق واقع ہوگی۔ (اخرجہ الامام البیہقی: ۷/۳۴۰)

طلاق ثلاثہ کے ان ناقابل تردید حقائق و شواہد کے باوجود، ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ماننے پر اصرار کے پس پردہ نفسانی خواہشات کی پیروی کے علاوہ اور کون جذبہ ہوسکتا ہے۔ اور اب تو مسلمانوں کا ایک روشن خیال طبقہ مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کا مطالبہ بھی کرنے لگا ہے اور بڑے جذباتی انداز میں تین طلاق کے حکم کو کالعدم قرار دینے اور عورتوں کو طلاق کا حق دینے کی تحریک چلارہا ہے، ایسے تجدد پسندوں میں تقلید کے مخالفین نمایاں نظر آتے ہیں۔

اگر ایسے دانشور حضرات واقعی مسلمانوں کے ہمدرد ہوتے اور اسلام کی حقیقت پر دل سے ایمان رکھتے تو طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے کے بجائے مسلمانوں میں دینی بیداری پیدا کرنے کی تحریک چلاتے کہ تین طلاق دینا اگرچہ جائز ہے لیکن اسلام نے اس حرکت کو مبغوض ترین عمل قرار دیا، اس جائز پر عمل نہ کرنا ہی افضل ہے کسی ایسے عمل کے جواز سے جس کی قباحت بھی واضح انداز میں بیان کردی گئی ہے بچنا اصل امتحان اور دینی بیداری کا ثبوت ہے، مگر جدید ذہن کے دانشوروں کو تو اسلام میں تحریف کرنے کا اتنا ارمان ہے کہ وہ کسی طرح سے بھی اسلام کو جدید نصرانیت سے ہم آہنگ کرنے کے مشتاق ہیں ان کو اسلام کی کاملیت اور جامعیت پر فخر نہیں بلکہ مغربیت کی نقالی کرنے اور اسلامی قوانین پر اعتراض کرکے اپنے آپ کو روشن خیال مسلمان ثابت کرنے کا جنون ہے۔

ان حضرات سے میری تو یہی گذارش ہے کہ رسماً اسلام کو تھامے رکھنے کے بجائے یہ نفس پرست مفکرین اپنا کوئی نیا راستہ ہی اختیار کرلیں نہ مسلمانوں کو ان کے مشوروں کی ضرورت ہے نہ اسلام کو ان کی حاجت ہے نہ ہی ایسے افراد مغربیت کیلئے موزوں ہیں اسلئے کہ خمیر میں ہندستانیت ہے، مزاج میں مغربیت ہے، زبان پر مسلمانوں سے ہمدردی اور دل میں لیڈرشپ اور اقتدار کی ہوس۔ یہ زرخرید ذہن والے صرف اخبار کی سرخیوں میں رہنے اور ملت کے نام پر فتنہ انگیزی میں مشغول رہنے کے شوقین ہیں۔ بہرحال یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ایسے افراد ہر دور میں گذرے ہیں۔

جہاں تک عورت کو حق طلاق دینے کی بات ہے تو اسلام نے کب منع کیا ہے، اگر آپ واقعی اتنے حساس ہیں تو اپنی بیوی کو حق طلاق تفویض کردیجئے اپنے بچوں کو حکم دیں کہ وہ نکاح کرتے وقت اپنی بیوی کو طلاق دینے کا اختیار سونپ دیں۔ پھر عورت کی بالادستی کا یورپی منظر اپنے گھروں میں عملاً دیکھیں۔ انشاء اللہ ایک بھی عالم دین نہیں کہنے جائے گا کہ آپ نے عورت کو طلاق دینے کا حق کیوں دیدیا ہے۔

رہ گئی یہ بات کہ علماء کرام قانون بناکر عورتوں کو اسلام کی طرف سے طلاق دینے کا ویسا ہی حق دیدیں جیسا کہ یورپ میں یہ کورٹ میرج میں مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کو طلاق دینے کا حق ہوتا ہے، تو اسلام بہرصورت ایسا حق عورتوں کو نہیں دے سکتا وہ مردوں کو قوام کہتا ہے تواس کے بعد عورتوں کو قوام بنانا خلاف فطرت بھی ہے اور خلاف عقل بھی ہے۔ پہلے یہ دانشوران قوم مرد و عورت کی تخلیقی حقیقت، مزاج و طبیعت کو سنجیدگی سے مطالعہ و تحقیق کے ذریعہ جانیں پھر اس موضوع پر لب کشائی کریں۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد: 89 ‏، ربیع الاول ‏، ربیع الثانی1426ہجری مطابق مئی 2005ء